جہاں مرکزجموں و کشمیر کی ترقی کے لئے ہزاروں کروڑ روپئے خرچ کررہا ہے وہیں پاکستان کے زیرانتظام کشمیرمیںایک مایوس کن تصویر دکھائی دے رہی ہے۔سرکاری اعدادوشمار کے مطابق جموں و کشمیر میں سالانہ میزانیہ 1 لاکھ کروڑ روپے سے تجاوز کرچکا ہے جبکہ جموں و کشمیر کی حکومت بڑی مشکل سے 10000 کروڑ روپے کی آمدنی حاصل کرتی ہے ،دیگر90ہزار کروڑ روپئے نئی دہلی نے کشمیر میں ترقی کو برقرار رکھنے کے لئے مختص کئے ہیں۔2004میں کشمیر کی جی ایس ڈی پی64 ارب ڈالر تھی جومسلسل تین لمبی ہڑتالوں کی وجہ سے 2017میں گر کر 19 ارب ڈالر تک پہنچ گئی۔اگر پاکستان زیر انتظام کشمیر سے اس کاموازنہ کیا جائے تو وہاں پر صرف سات ارب ڈالر ہے۔ اگرچہ 1990 کی دہائی سے ہی کشمیر مختلف رنگوں کی ٹھوکروں سے لڑ رہا ہے لیکن اس سے ہندوستان کو جی ڈی پی کی شرح نمو کو برقرار رکھنے سے نہیں روکا ہے۔ پاکستان زیر انتظام کشمیر میں مایوس کن 4.7 فیصد کے مقابلہ میں کشمیر کی جی ایس ڈی پی کی شرح 8.2 فیصد تھی۔موجود اعداد شمار کے مطابق پاکستان میں حکومت ساڑھے چار لاکھ آبادی کو کھانا کھلانے کے لئے 1300کروڑ روپئے مختص کرتی ہے۔ تعمیر و ترقی کے منصوبوںکا موازنہ اور بھی حیرت انگیز ہے جس میں بھارت نے جموں و کشمیر میں 2019 میں 6724 کروڑ روپئے صرف کئے جبکہ پاکستان زیر انتظام کشمیرمیں 1028 کروڑ روپئے خرچ کئے گئے۔تعمیر و ترقی کے لحاظ سے جموں و کشمیر میں 4ہوائی اڈے اور28ریلوے اسٹیشن موجود ہے جبکہ پاکستان زیر انتظام کشمیر میںدو غیر فعال ہوائی اڈے ہیں اور ریلوے کا کوئی نام و نشان نہیں ہے۔جموں و کشمیر میں فی کس آمدنی 1200 ڈالر ہے جبکہ پاکستان زیر انتظام کشمیر میں محض525ڈالر ہے۔جموں و کشمیر میں غربت کی شرح 10.35فیصد اور بے روزگاری کی شرح 12.13فیصدہے جبکہ پاکستان زیر انتظام کشمیر میںیہ شرح بالترتیب 34 اور18 فیصدہے۔ پاکستان زیر انتظام کشمیر کی حکومت نے 2019میںتعلیمی شعبے کیلئے135کروڑ روپئے خرچ کئے ہیں جبکہ ہندوستان نے جموں و کشمیر میں 1100کروڑ روپے صرف کئے۔ یہاں تک کہ جموں و کشمیر میں یونیورسٹیوں اور تعلیمی اداروں کے اعداد و شمار بہت زیادہ ہیں جن میں 183 یونیورسٹیوں اور کالجوں میں 18 میڈیکل کالج شامل ہیں جبکہ پاکستان زیر انتظام کشمیر میں صرف 8 ایسے ادارے ہیں جن میں 3 میڈیکل کالج بھی شامل ہیں۔ صحت کی دیکھ بھال کیلئے ہندوستانی حکومت نے جموں و کشمیر میں 300کروڑ روپے خرچ کئے جبکہ پاکستان زیر انتظام کشمیرمیں محض 29 کروڑ روپئے خرچ کئے گئے۔جموں و کشمیر میں چنئی ناشری ٹنل ، دریائے چناب پر دنیا کا آنے والا سب سے لمبا پل ، زیر تعمیر زوجیلا سرنگ ، سرینگر اور دیگر حصوں میں آنے والی رنگ روڈ ، سرینگر کے ساتھ جموں کوجوڑنے والیہر موسم سرنگ پر جاری کام جیسے انجینئرنگ کے کچھ معجزے بڑے پیمانے پرتعمیراتی منصوبے ہیں۔دوسری طرف جموں و کشمیر انتظامیہ اور پاکستان زیر انتظام کشمیر میں اس کے ہم منصبوں کے ذریعہکوروناوائرس کے جاری بحران سے نمٹنے کے لئے دیکھیں توجموں و کشمیر صحت کی دیکھ بھال کی جانچ اور فراہمی کے معاملے میں ہندوستان کی بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والی ریاستوں میں شامل ہے لیکن پاکستان زیر انتظام کشمیر میں لوگوں کو غیر یقینی وقتوں پر مجبور کیا گیا ہے۔صنعتی اداروں کو جبری بند کرانے اور عام زندگی میں خلل پڑنے سے کشمیر نجی سرمایہ کاری کی ایک غیر محفوظ جگہ بنگئی۔ کاروباری سرگرمیوںکوکشمیر میں کو فروغ دینے کے لئے اس طرح کے ناگوار ماحول کے مقابلے میں پاکستان زیر انتظام کشمیر اور گلگت بلتستان کو اقتصادی اور بنیادی ڈھانچے کی ترقی میں جموں و کشمیر سے آگے ہونا چاہئے تھا لیکن وہاں کی معیشت اور تعمیر ترقی پوری طرح بکھری ہوئی ہے۔ دنیا کے تیسرے امیر ترین قدرتی وسائل کے باوجود پاکستان عالمی اداروں کی طرف سے اقتصادی ضمانتوں اور دوست ممالک کی مالی اعانت سے چل رہا ہے۔اگرچہ اعدادوشمار کی درستگی میں تنازعہ موجود ہے لیکن پاکستان زیر انتظام کشمیرمیں 60 سے زیادہجنگجوﺅں کےتربیتی کیمپ چل رہے ہیں جو 1980 کی دہائی سے کشمیر میں بھارت مخالف جذبات کو ہوا دینے کے لئے استعمال ہورہے ہیں۔ جموں و کشمیر میں پچھلی تین دہائیوں سے ہزاروںسیکورٹی فورسزاہلکار اورعام ہلاک ہوچکے ہیں ، کاروباری شعبے کو پہنچنے والا نقصان بہت زیادہ ہوا ہے کیونکہ حریت رہنماو¿ں نے اپنے ذاتی مفاد کیلئے کشمیر میں 2700 سے زیادہ ہڑتال کالیں دیں۔